20-Nov-2022 غزل
یوں تو اس جسم پہ ملبوس پرانے سے رہے
اپنے انداز رئیسوں کے زمانے سے رہے
سرخ قالین بچھایا بھی اگر راہوں میں
بن بلائے ترے دروازے پہ آنے سے رہے
ہو گئے برف کی مانند ہمارے جذبے
آگ تو آپ بھی پانی میں لگانے سے رہے
ہم تو دریا ہیں بنا دیتے ہیں رستے ہر سو
ہم کسی راہ میں دیوار اٹھانے سے رہے
صرف ان کو ہی رہا ظلمت شب سے شکوہ
اک دیا وہ جو اندھیروں میں جلانے سے رہے